وہ تو اب ہے کہ تجھکو ننگِ ہستی جانتے ہیں سب کبھی وہ تھا کہ خود تجھ سے شرف تھا بزم دنیا کو |
|
عالم اسلام کو اسلام کا پیام |
ارے اے مسلم غفلت فروش اے پیکرِ عبرت یہ غم کچھ بھی نہیں ہے یاد کر آلامِ فردا کو |
|
زمانِ حال کی اہمیتوں سے تجھکو کیا مطلب نظر آتا ہے مستقبل ترا ہر چشمِ بینا کو |
|
وہ غیرت کیا ہوئی تیری حمیت کیا ہوئی تیری سمجھتا ہے جو مرجع دین کا دیر و کلیسا کو |
|
حریم دل میں کعبے کی بنا کی تھی کبھی قائم کبھی آنکھوں میں دیتا تھا جگہ تو خاک بطحا کو |
|
وہ تو اب ہے کہ تجھکو ننگِ ہستی جانتے ہیں سب کبھی وہ تھا کہ خود تجھ سے شرف تھا بزم دنیا کو |
|
یہ مانا خاک ہونا ہے، تجھے برباد ہونا ہے ابھی سے پست کربیٹھا ہے اپنے عزمِ بالا کو |
|
یہ کیا قطرے کو بھی سیلاب ہی اب تو سمجھتا ہے وہ جوہر تجھ میں تھا جو جذب کرلیتا تھا دریا کو |
|
ترے دم سے کبھی تھا منضبط شیرازہء ملّت اور اب تفریق مذہب کا سبق دیتا ہے دنیا کو |
|
وہ فن یورپ میں ہے جسکے ترے اسلاف بانی تھے خلاف دین سمجھتا ہی رہا تو علم الاشیاء کو |
|
کبھی اے خاکِ اندلس، خونِ مسلم تجھ میں مضمرتھا کیا تھا تو نے پابند حرم، اہل کلیسا کو |
|
ابھی باطل کی گو چھائی ہوئی ہیں ظلمتیں تجھ پر مگر پھر نورِ حق چمکیگا تجھ میں کروٹیں لیکر |
نوٹ: اس کلام کا عنوان جناب مولانا مصور کا تجویزکردہ ہے |
No comments:
Post a Comment