|
|
آج ہنس ہنس کے یہ گلہائے چمن کہتے ہیں سن تو کیا تجھسے محبان وطن کہتے ہیں |
|
جان احرار جوارِ باب وطن کہتے ہیں سرو آزاد تجھے اہلِ چمن کہتے ہیں |
|
تو گلستانِ سیاست کی گلِ خوبی ہے بلبلِ ہند تجھے اہلِ وطن کہتے ہیں |
|
باغباں ہو کہ گلچیں کہ چمن میں صیاد تجھکو گلِ پیرہن و غنچہ دہن کہتے ہیں |
|
یہ سمجھتے ہیں کہ تجھ میں ہے فقط بوئے وفا سب تجھے غیرتِ صد مشک ختن کہتے ہیں |
|
وقت ایسا ہی کچھ آیا ہے کہ سب اہلِ وطن آہ و فریاد میں اسرارِ محن کہتے ہیں |
|
ہم کبھی جسکو مسرت کا چمن کہتے تھے آج صد حیف اسے بیتِ حزن کہتے ہیں |
|
اختلافات کی یہ آندھیاں، اللہ، اللہ ہوچکا ہند کا برباد چمن کہتے ہیں |
|
تجھسے امیدیں ہیں وابستہ، تجھے بلبلِ ہند جان حریت و دلدارِ وطن کہتے ہیں |
|
اعتماد آج بھی ہے، ملک کو تجھپر اتنا مرحبا تجھکو دم عرضِ سخن کہتے ہیں |
|
کوئی بیدرد اگر درپئے آزادی ہو ہم اسے معتقدِ طوق و رسن کہتے ہیں |
|
رنج کیا اچھونمیں ہوتے ہیں برے بھی دوچار ہنسکے ہم اسکو بھی نیرنگِ زمن کہتے ہیں |
|
ہفت سیارونمیں مریخ و زحل بھی ہیں شریک ہم اسے سنتِ رفتار کہن کہتے ہیں |
|
مسئلہ یہ نہیں موصل کا، مگر ہند کا ہے ہاں اسے روکشِ بغداد و عدن کہتے ہیں |
|
سرخروئی نہ کبھی غیر کو ہوگی حاصل اسکے ہر ذرے کو ہم لعلِ یمن کہتے ہیں |
|
اٹھ کے پھر ہاتھ میں لے تو علمِ حریت ہے یہ سہرا ترے سر اہلِ وطن کہتے ہیں |
|
تجھکو یورپ سے ہوا ہند کی لے آئی ہے ہاں اسے حسرتِ پرواز چمن کہتے ہیں |
|
شانِ ماضی نظر آجائے ہمیں حال میں پھر پھر کہیں ہم اسے احساسِ وطن کہتے ہیں |
|
پھر وہی نعرہء تکبیر فضا میں گونجے کہ مصیبت زدہ یہ وقتِ محن کہتے ہیں |
|
اتفاق آج ہے ہر قول پہ تیرے سبکو ابھی جو کہدے وہی اہلِ وطن کہتے ہیں |
|
لاکھ پیچیدہ مسائل ہیں سیاست کے مگر تجھسے سلجھینگے یہ اوصافِ حسن کہتے ہیں |
|
بات کچھ بھی نہیں ہو شانہء اخلاص کی خیر ہم اسے زلفِ پریشاں کی شکن کہتے ہیں |
|
قامع بغض و حسد تو ہے کہ تجھ میں ہے خلوص ہاں تجھے ما حئی اشرار و فطن کہتے ہیں |
|
آفریں اب بھی یہ ثابت قدمی تیری ہے تیرے ہر عزم کو البرزشکن کہتے ہیں |
|
آج بھی دیکھتے ہیں تجھ میں وہی استقلال مستقل تجکو جو احرارِ وطن کہتے ہیں |
|
وہ بھی تھا وقت کہ تھا ہندو مسلم میں فساد اہل بینش اسے اب رسمِ کہن کہتے ہیں |
|
مثل یک جان دوقالب ہوں جو پھر دونوں فریق کہیں دشمن بھی اسے حب وطن کہتے ہیں |
|
ایک ہوں ہندو مسلم تو کہیں گلچیں سے دیکھ اسے وحدت نسرین و سمن کہتے ہیں
|
وہ بھی دن آئے کہ شوخی سے کہیں گنگا کو دیکھ زاہد اسے ہم نہر لبن کہتے ہیں |
|
خوش ہوں وہ بھی جنھیں کہتے ہیں رئیس الاحرار وہ بھی خوش ہوں جنھیں سالارِ وطن کہتے ہیں |
|
آج بچھڑے ہوئے پھر آئو گلے ملجائیں ہو مبارک یہی آثارِ زمن کہتے ہیں |
|
رہرو اب کہیں ہمت کا نہ دامن چھوٹے آگے اک اور بھی منزل ہے کٹھن کہتے ہیں |
|
آفتاب آج طلوع ہوگیا آزادی کا افقِ ہند پہ اب جلوہ فگن کہتے ہیں |
|
اپنے مرکز پہ جو قائم نہیں احرارِ وطن مصلحت بین انہیں اعدائے وطن کہتے ہیں |
|
نکتہ چینی کا نہیں وقت، یہ ہے کام کا وقت اب سیاست کے یہی ماہرِ فن کہتے ہیں |
|
ہم سے ارباب مخالف کو شکایت ہو تو ہو ہم مصور اسے اعجاز سخن کہتے ہیں |
|
|
|
|
نوٹ: اس کلام کا عنوان خود جناب مصور نے تجویز کیا ہے |
آسان اردو – جستجو میڈیا |
بلبل ہند= سروجنی نائیڈو کا ایک معروف لقب |
قامِع[قا + مِع]عربی |
|
صفت ذاتی |
کلام و کائنات مصور: مخزن غزلیات میں خوش آمدید
Saturday, March 28, 2009
خطاب بہ بلبلِ ہند
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment