عالمِ اسلام کو مصور کا پیام |
ایک تو دہر میں ہے، حامل انوارِ خدا |
ظلمتِ کفر ہے کیا چیز، درخشاں ہوجا |
مشکلیں حل ہوئی جاتی ہیں، پریشاں کیوں ہے |
کوئی دم کیلیے آسودہء حرماں ہوجا |
مقتل حق کی کہتی ہے ادائے رنگیں |
کثرت زخم سے ہمرنگ گلستاں ہوجا |
اپنے افراد میں کر خون اخوت پیدا |
تفرقہ چھوڑدے، اب مرکز اخواں ہوجا |
اس سنورنے میں ترے، قوم کی بربادی ہے |
شوقِ جمعیتِ دل ہے، تو پریشاں ہوجا |
خون کا قطرہ آخر بھی نثارِ حق ہو |
صفحہء دھر پہ رنگینیء عنواں ہوجا |
شور فریاد نکر، شکوہء بیداد نہ کر |
تو ہی خود ملت بیکس کا نگہباں ہوجا |
چشمِ عالم میں نمایاں ہو بصیرت بنکر |
ملکے تو خاک میں یوں سرمہء امکاں ہوجا |
وجہء تسکین جگر ہے، تیری بیتابیء دل |
شدّت درد سے کیفیتِ درماں ہوجا |
پردہ پوشی کو تری رحمت مضطر ہے |
تو خدا کیلیے شرمندہء عصیاں ہوجا |
اہلِ عالم کیلیے آیہء رحمت ہے تو |
تشنہ کاموں کیلیے بارشِ احساں ہوجا |
کیا نہیں قوتِ حق خون میں تیرے مضمر |
اپنی فطرت کے حجابوں سے تمایاں ہوجا |
تیرے دامن پہ ہو کونین کی وسعت صدقے |
یوں حریفِ گلہء تنگیء داماں ہوجا |
سرد کردے نہ کہیں تجھکو، ہوائے یورپ |
گرم اتنا ہو کہ اک مہرِ درخشاں ہوجا |
پرتوء حق سے مٹے ظلمت باطل یکسر |
مطلع کفر سے اس طرح نمایاں ہوجا |
تجھ میں ایمان کی قوت ہے ابھی تک باقی |
جو محالات پہ چھاجائے وہ امکاں ہوجا |
مادّیت کیطرف ایلِ جہاں ہیں مائل |
فرض تیرا ہے کہ تو بندہء یزداں ہوجا |
عزمِ یورپ ہے کہ ہستی سے مٹادے تجکو |
تو مگر وضع محمد ہی پہ قربان ہوجا |
غلبہء کفر ہو ایماں پہ، کہیں ممکن ہے |
تو مسلماں جو نہیں ہے، تو مسلماں ہوجا |
کہتے ہیں تیرے مخالف کہ ہے تو محوِ جمود |
تجھ میں غیرت ہے تو اب گردشِ دوراں ہوجا |
ہاں تیری غیرت اسلام یہی کہتی ہے |
تو نمایاں نہیں عالم میں تو پنہاں ہوجا |
جادہء عقل پہ چل ، وادیء وحشت سے نکل |
تجھ پہ انساں بھی کریں فخر، وہ انساں ہوجا |
جانتا ہے ترے احساس کی دنیا کیا ہے |
درد بنکر رخ ہستی سے تمایاں ہوجا |
سروساماں سے نکر غیرت حق کو رسوا |
تجھکو لازم ہے کہ تو بے سروساماں ہوجا |
سطح گیتی سے عیاں منظر مستقبل ہے |
فتح کو تیرے ہی قدموں کا شرف حاصل ہے |
کلام و کائنات مصور: مخزن غزلیات میں خوش آمدید
Friday, March 27, 2009
عالمِ اسلام کو مصور کا پیام
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment