تجھے دیکھا کریں حیرت سے سارے دیکھنے والے |
نئے انداز سے پھر دہر میں تو جلوہ گستر ہو |
سکندرِ دو عالم |
|
تجھے خلوت میں کچھ اہلِ وطن کا بھی خیال آئے |
بجائے سیج کانٹوں کی، ترا پھولوں کا بستر ہو |
|
نہیں زیبا تجھے مشرق کو صرف اپنا وطن کہنا |
تعین کی حدوں کوتوڑدے عالم کا سَروَر ہو |
|
جو ہو یوں جوہرِ تیغ، تیغِ زباں سے فتح مُلکِ دل |
بجا ہے گر شہنشاہ سخن تجھسا سخنور ہو |
|
یہ ظاہر ہے کوئی بیحس جہاں میں جی نہیں سکتا |
سکون یاس کیا اب آشنائے قلبِ مضطر ہو |
|
ترے احساس کی بے وقعتی نہیں جاتی |
دکھا جذبات وہ جسپر فدا اندازِ محشر ہو |
|
اگر اپنے صفائے قلب سے اُسکی جِلا کردے |
یہ ممکن ہے تو ہی دو عالم کا سکندر ہو |
|
جو تو ہستی میں ہے، تو مٹادے کفرکی مستی |
علم و تیغ کر جسمیں ترے ایماں کا جوہر ہو |
|
جہاں کی طاقتیں ہیں متحد ترے مٹانے پر |
کہ اب چلتی ہوئی تلوار ہو، رفتارخنجر ہو |
|
ترے ان بازوئوں میں قوت، حق کی ودیعت ہے |
ارے نا آشنا، تو رازدار فتح خیبر ہو |
|
اگر کچھ پرتوء اسلام تیرے دلمیں باقی ہے |
تو ایماں کی ضیاء میں حامیء دین پیمبر ہو |
|
سناکر اپنے لہجہ میں وہی پیغامِ روحانی |
مٹا باطل کو ہستی سے جہانمیں حق کا مظہر ہو |
|
تجھے دیکھا کریں حیرت سے سارے دیکھنے والے |
نئے انداز سے پھر دہر میں تو جلوہ گستر ہو |
|
تو چشمِ فیض سے اپنی وہ کر خورشیدِ نو پیدا |
کہ جس کے سامنے ذرّہ سے کم خورشیدِ خاور ہو |
|
لگے خونِ اخوت دوڑنے پھر نبضِ ملّت میں |
وہ اعجازِ نفس سے تو نسیم روح پرور ہو |
|
قسم ہے اسکی وحدت کی تجھے، یہ تفرقہ کیا ہے |
مےء توحید پیکر مشرق و مغرب کا رہبرہو |
|
اگر آندھی چمن کی تجھکو چاہے منتشر کرنا |
پئے جمعیت دل پیکر اضدادِ صر صر ہو |
|
مسلط طاقتیں سب کفر کی جب تجھ پر ہوجائیں |
زباں پر تیری اس دم نعرہء اللہ اکبر ہو |
|
عجب کیا ہے زمانِ حال کی سرگرمیوں ہی میں |
درخشاں، بیخبر، ترے ہی مستقبل کا منظر ہو |
|
علوِ فکر کا تیری تقاضا ہے، یہی تجھ سے |
تری حدِ تخیل ماورائے چرخ اخضر ہو |
|
|
آسان اردو – جستجو میڈیا |
سَرْوَر ، سَرْوَری: ۔۔ سرداری، قیادت، حکومت، بادشاہت، پیشوائی۔ |
|
خاور = مشرقی، مشرق |
|
پَئے-[پَئے] فارسی |
لیے، واسطے |
چرخ اخضر= نیلا آسمان، بظاہر نیلا، مگر اخضر عربی میں ہرے رنگ کو کہتے ہیں |
No comments:
Post a Comment