ہنس رہے ہیں گریہء شبنم پہ گُل
شاد کیسے فطرتِ ناشاد ہو

شاد و ناشاد
ہاں کچھ اس انداز سے فریاد ہو
مہرباں خود، بانیء بیداد ہو
جب کوئی طرزِ ستم ایجاد ہو
مجکو تیری دلنوازی یاد ہو
یوں شکستِ قیدِ استبداد ہو
لب پر اپنے ۔۔ نالہ ء آزاد ہو
ضبطِ غم کی یوں بیاں روداد ہو
سننے والے مائل فریاد ہو
دیکھ تو نیرنگیء عالم کو دیکھ
واقف ہستیء بے بنیا د ہو
یوں تصور میں نکل جائیں کہیں
انتہائے قید بے میعاد ہو
حیف اک دل کے مٹانے کے لیے
اِک جہانِ جبرواستبداد ہو
تمکو شاید نو اسیرانِِ قفس
حضرت یوسف کا قصہ یاد ہو
اے رگِ غیرت نہ تو کیوں کٹ گئی
نشنہ لب یوں خنجرجلاّد ہو
دہر کو نیرنگیوں سے کام ہے
ہو کوئی آباد یا برباد ہو
تیرے اِس حسنِ طلب کےمیں نثار
کوئی کیونکر مائل فریاد ہو
مٹ کے بھِی مٹنے کی حسرت ہی رہے
یوں مگربیداد پر بیداد ہو
گوشِ باطل بھی سنیں اے ہمنوا
بے حقیقت کیوں ہو، جو فریاد ہو
ہنس رہے ہیں گریہء شبنم پہ گُل
شاد کیسے فطرتِ ناشاد ہو
مجھکو مَحسودِ زمانہ کردیا
تجھپہ رحمتِ طبقہء حساد ہو
پُرسکوں ہو جب فضائے کائنات
لب پر اک حسرت بھری فریاد ہو
ہاں مصور، جو کمالِ نقص ہے
وہ بھی نذرِ جراءت نقّاد ہو
No comments:
Post a Comment