حقیقتیں بھی کھُلیں ہمپہ چشمِ بینا کی |
کہ خود حجاب کا اُٹھنا، حجاب ہوجائے |

حجاب | ||
ہر ایک ذرہ وہیں پُرشباب ہوجائے | ||
اگر جہاں سے مجھے اجتناب ہوجائے | ||
| ||
کفیل یوں کرم بے حساب ہوجائے | ||
کہ عاصیوں میں کوئی انتخاب ہوجائے | ||
| ||
حقیقت اسکی اگر بے نقاب ہوجائے | ||
یہ ذرہ غیرتِ صد آفتاب ہوجائے | ||
| ||
رضا میں اسکی جو دل کامیاب ہوجائے | ||
زمیں پہ عرشِ بریں کا جواب ہوجائے | ||
| ||
غرورِ فتح سے بہتر ہے عجزِ ناکامی | ||
کہیں دعا نہ مری مستجاب ہوجائے | ||
| ||
ہم اسکو جان بھی دیکر خریدلیں ایدل | ||
وفا کہیں سے اگر دستیاب ہوجائے | ||
| ||
میں ڈر رہا ہوں کہ مضمر ہے اسمیں ناکامی | ||
زمانے میں نہ کوئی کامیا ب ہوجائے | ||
| ||
یہ کائنات ہو جسکے لئے پیامِ حیات | ||
وہی نظیر بقائے حباب ہوجائے | ||
| ||
فریب ہمکو نہ دیتی رہے جو موجِ امید | ||
یہ بحر زیست بھی دم میں سراب ہوجائے | ||
| ||
پکارتی ہے سرِ حشر رحمتِ باری | ||
گناہگار یہاں باریاب ہوجائے | ||
| ||
یہ* اقتضا ہے محبت کا اے خرابِ وفا | ||
سکونِ دل سببِ اضطراب ہوجائے | ||
| ||
اگر وہ نورِ حقیقت یہاں ہو جلوہ نما | ||
مری نگاہ خود اسکا حجاب ہوجائے | ||
| ||
جو انتہائے تمنّائے مرگ میں گذرے | ||
نفس وہ حاصلِ صدانقلاب ہوجائے | ||
| ||
کسکیو چشمِ حقیقت میں گرسمانا ہے | ||
ذلیل وخوار تباہ و خراب ہوجائے | ||
حقیقتیں بھی کھلیں ہمپہ چشمِ بینا کی | ||
کہ خود حجاب کا اُٹھنا، حجاب ہوجائے | ||
| ||
نفس نفس پہ مصور رہے خیال اُسکا | ||
قدم قدم پہ مگر احتساب ہوجائے |
No comments:
Post a Comment