اشک کی طرح گرایا ہو جسے دنیا نے
وہی انسان یہاں پیکرِ عظمت کیوں ہو

کیوں؟
جون، 30, 1945
تیرے الطاف سے انکار کی جراء ت کیوں ہو
یہ زباں شکر کے قابل ہے شکایت کیوں ہو
چشم اخلاص میں اب اشکِ ندامت کیوں ہو
قطع یوں سلسلہء نذرِ عقیدت کیوں ہو
سرکشی، اور در حق سے، یہ جراءت کیوں ہو
عبد پھر عبد ہے، انکارِ عبادت کیوں ہو
اسقدر مشغلہء محفلِِ عشرت کیوں ہو
مری نظروں سے نہاں منزلِ عبرت کیوں ہو
ابتو راحت کا تصور بھی مصیبت ہے مجھے
جانتا ہوں یہ جہاں مسکنِ راحت کیوں ہو
اشک کی طرح گرایا ہو جسے دنیا نے
وہی انسان یہاں پیکرِ عظمت کیوں ہو
HomePage ہوم پیج
مخزن غزلیات: سرورق
No comments:
Post a Comment