ایدل تو اس جہاں میں وہ منزل تلاش کر |
گزرا نہ ہو جہاں سے کبھی کارواں کوئی |

منزلِ نو |
|
کہتا نہیں ہے دل سے تری داستاں کوئی |
دنیا میں اب نہیں ہے، مرا ہمزباں کوئی |
رکھدے جبینِ عجز سرِ آستاں کوئی |
پھر مہرباں کوئی ہو، کہ نامہرباں کوئی |
آنکھیں ہوں گر تو انکو یہی جستجو رہے |
ہوتا ہے ذرہ ذرہ سے کیونکر عیاں کوئی |
اب اعتماد محرم و ہمراز کیا کہوں |
مجھکو سنا رہا ہے مری داستاں کوئی |
ہو پست اپنی ہمت عالی کا مرتبہ |
سر پر اگر محیط نہو آسماں کوئی |
مانا یہی ہے نقشہء نیرنگئی چمن |
کبتک رہے رہینِ بہاروخزاں کوئی |
بربادیاں بھی اپنی، چمن میں ہیں لازمی |
ہم بھی یہاں بنائیں گے، اب آشیاں کوئی |
سب سے رہِ وفا میں یہی کہہ رہا ہونمیں |
اپنا تو اس جہاں میں نہ ہو، پاسباں کوئی |
وہ بے نشاں رہے، نہ کچھ اسکا نشاں رہے |
اسطرح مل کے خاکمیں ہو بے نشاں کوئی |
شاید سکوتِ رنج مرے *دلپہ چھاگیا |
آتی نہیں ہے آج تو لب تک فغاں کوئی |
اف گلستانِ دہر کی یہ بے ثباتیاں |
کرتا رہا بہار میں یادِ خزاں کوئی |
غم بھی ہے بے ثبات، خوشی بھی ہے بے ثبات |
دنیا میں کیا سمجھ کے رہے شادماں کوئی |
کافی نہیں ستم کیلئے اسقدر فضا |
تعمیر کررہا ہے نیا آسماں کوئی |
کیوں اپنی خستہ پائی پہ ایسے اداس ہے |
بنجائے کاش گردِ رہِ کارواں کوئی |
دل کی حدونسے اپنی ہی دنیائے شوق میں |
پھرتا ہے لیکے وسعتِ کون و مکاں کوئی |
یوں مجکو اپنی ہستیءفانی پہ ناز ہے |
یہ جانتا ہونمیں کہ نہیں جاوداں کوئی |
مری جبیں ہے وقت ترے در کے واسطے |
موزوں نہین ہے اسکے لیے آستاں کوئی |
ایدل تو اس جہاں میں وہ منزل تلاش کر |
گزرا نہ ہو جہاں سے کبھی کارواں کوئی |
میں ساری کائنات کا ہوں نقطہء نگاہ |
اس امتحان سے بڑھکے نہیں، امتحاں کوئی |
تجھپر امیر ملک معانی کی ہے نظر |
تجھ سا مصور اب نہیں، معجز بیاں کوئی |
دلپہ= دل پر، دل پہ* |
No comments:
Post a Comment