عدل سیکھا ہے زمانے نے ترے اسلاف سے |
حیف تجھ پر ہے اگر دنیا میں تو عادل نہو |
مسلم قوم سے خطاب |
سرنگوں تھیں تیرے قدموں میں جہاں کی سطوتیں |
عظمتِ ماضی کو اپنی یاد کرغافل نہو |
تو ابھی تاریکیء ہجراں سمجھتا ہے جسے |
وہ حقیقت میں فریبِ ظلمتِ باطل نہو |
منزل مقصد جسے سمجھا کیا تو آج تک |
وہ بھی اے غافل فریبِ سعیء لاحاصل نہو |
تو کہ ماضی میں رہا ہے منتہائے کائنات |
آنے والے وقت سے بھی اسقدر غافل نہو |
دولتِ دنیا طلب کرتا ہے تو کیوں غیر سے |
جو ترے قدموں میں ہے اس چیز کا سائل نہو |
عدل سیکھا ہے زمانے نے ترے اسلاف سے |
حیف تجھ پر ہے اگر دنیا میں تو عادل نہو |
دیکھتا ہے اہلِ یورپ کی بہت آرائشیں |
اسمیں بربادی ترے ایمان کی شامل نہو |
دیکھ نیرنگ زمانہ چشمِ عبرت کھول کر |
تو مگر تہذیب یورپ کا کبھی قائل نہو |
گامزن راہِ ترقّی میں ہو، ماضی کو نہ بھول |
حال میں تو محوِ جولانگاہ مستقبل نہو |
دیکھ تو اپنے حریفوں کا علو مرتبت |
یوں خرابِ افتخار بحث لاطائل نہو |
ڈٰھونڈھ صحرائے عمل تو، منزلِ عشرت کو چھوڑ |
اسکے تو قابل نہ ہو، یا یہ ترے قابل نہو |
سونچ اتنا تو دل میں تو رقصِ حسیناں دیکھکر |
تیری ہستی بے نیازِ ملّت بسمل نہو |
دیکھ چشمِ غور سے تو رنگ روئے گلرخاں |
اس میں خون ملت بیضا کا ہے، تو غافل نہو |
تو ہی اپنی راہ میں خود ہورہا ہے سدِ راہ |
تو اگر حائل نہو، تو ُپھر کوئی حائل نہو |
تجھ میں گر شمع شبستاں کی سی تابانی نہیں |
پھر چراغِ گور بنجا، درخورِ محفل نہو |
کیوں سہارا ڈھونڈتا ہے، غیر کا طوفان میں |
غرق ہی ہو جا، کہ تجھکو حسرتِ ساحل نہو |
بے حمیت تیغِ غیرت سے گلا خود کاٹ لے |
جان ہی دینا ہے تو، منت کش قاتل نہو |
ہوش میں آ ! کر حقیقت پر نظر مجنوں نہ بن |
اب رہینِ جستجوئے لیلیٰ محمل نہو |
آسان اردو-جستجو میڈیا |
لاطائل = خیال باطل ۔ وہم ۔ خال لاطائل |
No comments:
Post a Comment