بچھڑے ہیں رہ روان عدم ہائے کسطرح
یوسف نہ تھے کہ ہوتے جدا کارواںسے ہم
شکوہ آسماں
یا رب اگر جدا ہوئے اس آستاں سے ہم
ہونگے رہا کبھی نہ غم جاوداں سے ہم
اس در کی خاک بنگئے دورزماں سے ہم
رفعت میں یوں بلند ہوئے آسمانسے ہم
محفوظ ہیں یہاں ستم آسماں سے ہم
جائیں کہاں اب اٹھکے ترے آستانسے ہم
حالت جہاں کی دیکھ کے محوسکوت ہے
واقف ہیں ورنہ لذت آہ و فغاںسے ہم
بچھڑے ہیں رہ روان عدم ہائے کسطرح
یوسف نہ تھے کہ ہوتے جدا کارواںسے ہم
جھک کر ہراک سے ملتے ہیں یہ انکسارسے
رتبہ میں کم نہیں ہیں کسی آسمانسے ہم
حائل ہے اپنی ہمت عالی کی راہ میں
جی چاہتاہے آج لڑیں آسماں سے ہم
ہے روح اپنی مائل پرواز عندلیب
شاید اب آشنا ہوئے در نہانسے ہم
شائد کبھی چمن میں نہ آئیگی پھر بہار
مانوس ہوگئے ہیں کچھ اب ایسے خزاں سے ہم
افتادگی نے کیوں ہمیں ڈالا ہے چاہ میں
آگاہ تھے نشیب وفراز جہانسے ہم
جب نالہء جرس کا خیال آگیا ہمیں
روئے لپٹ کے گردِ رہ کارواںسے ہم
گلچیں سے پوچھتے ہیں گلستانکی کیفیت
کیا بے خبر ہیں سعیء غمِ باغباں سے ہم
آتی ہیں یاد رحمت باری کی وسعتیں
کیا شادماں ہوں مژدہء باغ جناں سے ہم
اب کیوں ستا رہاہے ہمیں منظربہار
اک عمر آشنا رہے رنگ خزانسے ہم
اپنا نظیر ڈھونڈتی ہے چشم جستجو
تنگ آگئے ہیں وسعتِ کون و مکاںسے ہم
کچھ بڑھ چلا ہے دلمیں تصور یقین کا
کچھ بڑھ گئے ہیں سرحدِ وہم وگمانسے ہم
اپنی زبان بھی ہے کوئی کیا زبانِ غیر
وہ کر دکھلائینگے جو کہیں گے زبانسے ہم
ہمکو زباں کا پاس مصور ہے اسقدر
الجھے نہیں کبھی کسی اہلِ زباںسے ہم
No comments:
Post a Comment