نہ جانے لکھ دیا دست ازل نے کس محبت سے
رہا عنوان غم ہستی میں زیب داستاں ہو کر
خیال جاوداں
یہ کس کا وصف لکھا ہے بے نیازِ دوجہاں ہوکر
کہ ہرنقطہ ہے نازاں شرح اعجاز بیاں ہوکر
شرف حاصل ہوا یہ پائمال ہمرہاں ہوکر
مٹے بھی تو مٹے ہستی سے ہم عرش آشیاں ہوکر
مری فریاد پابندِ حصار لامکاں ہوکر
رہی دنیا میں آزاد حدود ایں و آں ہوکر
مٹاجاتا ہوں خود محو خیال جاوداں ہوکر
زمانہ کیا مٹائے گا شریک آسماں ہوکر
رہے راہ طلب میں ہم غبار کارواں ہوکر
مٹے ہستی سے بھی تو زینتِ لوح جہاں ہوکر
جو ہر ذرہ کو اپنا لخت دل سمجھا کیا ہمدم
چلا وہ اس جہاں سے حاصل کون و مکاں ہوکر
مٹا میں اور مٹکر ہوگیا برباد بھی لیکن
رہا میرے تصوّر میں وہ نقش جاوداں ہوکر
جو سانسیں ہمنے لی تھیں حسرتِ سوز محبّت میں
رہیں وہ باغ وحدت میں نسیم جاوداں ہوکر
یہ خاموشی مری یہ انتہائے بیکسی یارب
کہیگا ذرہ ذرہ مآل دل اف نہ خواں ہوکر
زمانہ نے مٹایا اور ہم مٹ بھی گئے آخر
اٹھے گردوں کی جانب اسکی خاک آستاں ہوکر
ترا اعجاز اے درد محبت میں ترے صدقے
رہا ہستی میں غم اسکا نشاطِ دو جہاں ہوکر
ترا احسان نہ بھولونگا کبھی اے گردش قسمت
مٹاہوں بزم ہستی سے نشانِ بے نشاں ہوکر
مٹا دینا کسی بیکس کا کیا آسان ہے اے چرخ
رہونگا میں دل عالم میں احساس فغاں ہوکر
نہ جانے لکھ دیا دست ازل نے کس محبت سے
رہا عنوان غم ہستی میں زیب داستاں ہوکر
سبق دیتی ہے یہ مٹتے ہوئے پھولوں کی رعنائی
اگرمٹنا تو مٹنا زینت بزم جہاں ہوکر
زبان بیکسی دہرارہی ہے حال بربادی
سرمنزل مٹا ہوں میں غبار کارواں ہوکر
رہِ الفت کا ہر ذرہ تھا اک تمہید ناکامی
رہے اس رہگذر میں ہم رہینِ امتحاں ہوکر
مٹاتا ہی رہا کوئی مگر قلبِ مصوّر پر
رہا ہر داغ دل نقش حیات جاوداں ہوکر
اگر اک جنبش لب نے مٹادی قوم کی ہستی
مصورکیا کریں گے آپ پھر معجز بیاں ہوکر
* * *
یہ کہتا ہوں غبار راہ تسلیم و رضا ہوکر
بہت رتبہ میں کم ہوں عرش سے بھی ماورا ہوکر
قیامت ہیں تغرہائے ہستی کی تمنّائیں
نظر آتا ہے اب مجکو زمانہ کیا سے کیا ہوکر
کدورت مجھ سے وہ رکھتا یہ طاقت آسماں کی کیا
مٹا ہوں میں غبار قلبِ ارباب صفا ہوکر
ہر اک آنسو نظر آتا ہے مجکو چشمِ گریاں میں
کبھی آب بقا ہوکر، کبھی زہر فنا ہوکر
میں اک انسانِ عاجز ہوں بنا ہوں خاک سےلیکن
سرِ عرشِ بریں ہوں محو عقلِ ماورا ہوکر
مٹے سب نقش غم نقش طلب دل سے مِرے لیکن
یہ ہمرنگ بقا ہوکر وہ ہمرنگ فنا ہوکر
ابھی تک بل نہیں آیا ہے ابروئے زمانہ پر
مٹا جاتا ہے ہستی سے کوئی نقشِ وفا ہوکر
اداسی ہے نمایاں، اہل عالم کی جبینوں سے
نکل اے اشک اب تفصیلِ ظلم ناروا ہوکر
مجھے دیکھو کہ سوزوسازعالم مجھ میں ہے مضمر
کہ سب کا ہمنوا ہوں ایک فقیرِ بے نوا ہوکر
کوئی اے دردِ دل مصروف شانِ بے نیازی ہے
بدل دے رنگ ہستی آج تو حد سے سوا ہوکر
تبرّک سمجھی جاتی خاک بھی قلب سکندرکی
جو ملتا خاک میں آئینہ اہلِ صفا ہوکر
ہر اک موج نفس پر انحصار بحر ہستی ہے
چلی کشتی ء دل پابند گرداب فنا ہوکر
تری ہستی کہ مضمر جس میں ہیں اجزائے پستی بھی
خدا کو بھول بیٹھا محوبام ارتقا ہوکر
یہ شان رحمت عالم رہی جو بزم امکانمیں
نمود بیکسئ تشنگان کربلا ہوکر
اسے ٹھکرادے یا رب یا اسے اب سرفرازی دے
ترے در تک میں آیا ہوں سراپا التجا ہوکر
کوئی ساز فنا جب چھیڑتا ہے بزم ہستی میں
فضا میں گونجتا ہوں نغمہء بانگِ درا ہوکر
مسافر ہوں مجھے لازم ہے احساسِ سفرہردم
نوائے دل بھی نکلے حاصل بانگ درا ہوکر
مرادل ہے کہ گردِ کارواں کو ڈھونڈتا نہیں
جئے کوئی ہلاک نغمہء بانگ درا ہوکر
نہ پوچھو کسقدرہمسے کدورت تھی زمانہ کو
ملے ہیں خاک میں ہم قلب عالم کی جِلاہوکر
کوئی افسردگئی دل کی اس سے منزلت پوچھے
گزاری ہوجہاں میں عمرجس نے بے ریا ہوکر
خیالِ خاطر محبوب و پاس درد تنہائی
مجھے مشکل میں ڈالیں گے مرے نالے رسا ہوکر
ارے اے نالہء بیکس جو یوں نکلا تو کیا نکلا
نکلنا تھا تجھے ٹوٹے ہوئے دل کی صداہوکر
سمجھ میں آرہے ہیں معنیء عفووکرم ایدل
خطائوں کا ہمیں اقرار ہے اب بے خطاہوکر
ہوئے خاموش سارے پوچھنے والے دمِ آخر
رہی سب داستان دل نگاہونمیں اداہوکر
یہ احساں کا زمانہ اور یہ محسن کشی ایدل
کوئی دنمیں نظرآئیگی دنیا کیا سے کیا ہوکر
ارے اے ناآشنائے رازہستی کیا خبرتجھکو
کہ سب کچھ کھودیا تونے خدائے ماسواہوکر
یہ اندازِ نظرہے، یا فریب خودبیں ہے
کہ وہ مجھکونظرآیا ںظر سے ماوراہوکر
مصوّراس سےتم اندازہءذوق سخن کرلو
کہ چپ ہوں اس چمن میں شاعررنگیں نواہوکر
آسان اردو: جستجو میڈیا
تَغَر [تَغَر] (عربی)
اسم نکرہ
تغیر کی تخفیق
homepage ہوم پیج
No comments:
Post a Comment