رہِ وفا میں یہ کہتا ہے مجھ سے ہر ذرّہ |
کہ ایک مرحلہء صبر آزما ہوں میں |

غریبِ وطن |
صعوبتوں کا نشانہ بنا ہوا ہوں میں |
یہ مختصر ہے کہ تفسیرِ ھل انا؟ بنا ہوا ہونمیں |
یہ کیا کہ نقشِ وفا کو مٹا رہا ہوں میں |
جہانمیں ہوں کہ جہانسے گزر گیا ہونمیں |
غضب ہے آس جہانسے لگا رہا ہوں میں |
ہجوم شوق کے چکر میں آگیا ہوںمیں |
ہر ایک پھول کو مغموم دیکھتا ہوں میں |
ریاضِ دہر میں اک درد آشنا ہونمیں |
فریبِ عشق کی منزل کو سمجھ رہا ہونمیں |
ضرور مرکزِ اصلی سے ہٹ گیا ہونمیں |
زمانے بھر کے کمالات جانتا ہونمیں |
یہی خبر نہیں مجکو، کہ ہائے کیا ہونمیں |
وہ ماورا ہے سمجھ سے نہ ماورا ہوں میں |
نہ جاننے پہ بھی اتنا تو جانتا ہونمیں |
الہٰی خیر کہ ہوں بار، قلبِ عالم پر |
جہاں کو شوق کی نظرونسے تک رہاہونمیں |
زمانہ مجکو بدلتے دکھائی دیتا ہے |
جب اپنے دلکے تغیّر کو دیکھتا ہونمیں |
ملا کے خاک میں عمرعزیز سی شے کو |
امید و شوق کی دنیا، بسا رہا ہونمیں |
جہانِ خاک سمجھتا ہے، مرتبہ میرا |
کہیں عناصرِ اربعہ سے ماورا ہوں میں |
سمجھ رہا ہے یہ عالم کہ بے حقیقت ہوں |
مگر حقیقتِ عالم کو جانتا ۔۔ ہوںمیں |
نظر میں پھرتی ہے، اہل وطن کی بے مہری |
نظر سے دور، وطن کو سمجھ رہا ہونمیں |
بس اس سبب سے کدورت فلک کو ہے مجھ سے |
مٹا رہا ہے کہ اک پیکرِ وفا ہوں میں |
کیا سلوک وہ کانٹوں نے دشتِ غربت کے |
وطن کو یاس کی نظرونسے تک رہا ہونمیں |
مجھی پہ ہوتی ہیں نازل، بلائیں سب اسکی |
نگاہِ یاس کا خود اپنی منتہا ہوں میں |
نہ کچھ خیالِ نوائب، نہ غم حوادث کا |
کہ اس جہان میں پروردہء فنا ہونمیں |
رہِ وفا میں یہ کہتا ہے مجھ سے ہر ذرّہ |
کہ ایک مرحلہء صبر آزما ہوں میں |
مثالِ قطرہء شبنم ریاضِ عالم میں |
بقا کے رنگ میں اک رہرو فنا ہوںمیں |
نہوگا شکوہء بربادیء وطن مجھے |
کہ آپ اپنے تنزّل کی ابتدا ہونمیں |
گزرہوا در منعم پہ لاکھ بار مگر |
صدا نہ دی کبھی جس نے، وہ بینوا ہونمیں |
مصور اس کے سوا کیا مری حقیقت ہے |
کہ اپنی ہستیء موہوم کا پتا ۔۔۔ ہونمیں |
|
No comments:
Post a Comment