مصور باغ عالم کی بہت کچھ سیر کی ہمنے
نظر آئی ہمیں تو بے ثباتی ہرگل تر میں

نسیم روح پرور
سماں گورِ غریباں کا ہے ابتک دیدہء تر میں
زبانِ بیکسی گویا تھی کیا خاموش منظر میں
ہراک آنسو ہے اپنا مایہ دارِ خون صدحسرت
شکستِ دل کی ہے آواز ہرفریاد مضطرمیں
چراغِ عمر کس امّید پر قائم رہے آخر
ہوائے یاس مضمرہے نسیم روح پرورمیں
رہینِ سعی لاحاصل ہم اپنی زندگی کردیں
کسی سے کیا گلہ، لکھا تھا یہ اپنے مقدرمیں
ہراک بیتابیء دل وجہ تسکین ہوتی ہے یارب
سکونِ یاس ہی آجائے میرے قلب مضطرمیں
اداس اب اے نگاہِ یاس آگیں اسقدر کیوں ہے
جہانِ کامرانی ہے نہاں حسرت کے منظرمیں
ذراہم قبرمیں آرام بھی نہ لینے پائے تھے
کہاں اے بیکسی تو لے چلی میدانِ محشر میں
مری حرماں نصیبی وجہ تجدید تمنّا ہے
کہ شاید یہ بھی ہے لکھا ہوا میرے مقدر میں
مصور باغ عالم کی بہت کچھ سیر کی ہمنے
نظر آئی ہمیں تو بے ثباتی ہرگل تر میں

No comments:
Post a Comment