مثل بوئے گل اسے پوشیدہ رکھ
کرنہ افشا اپنے دل کے راز کو

ساز ء راز
چھیڑکرخود اپنےغم کے ساز کو
کیوں کیا رسوا نوائے راز کو
آمدورفتِ نفس میں ہرنفس
سن رہاہوں میں فنا کے ساز کو
مثل بوئے گل اسے پوشیدہ رکھ
کرنہ افشا اپنے دل کے راز کو
ہوگا ہونا ہے جو حسرت کا مآل
جانتا ہوں صورتِ آغاز کو
دیکھ لے اے چشمِ عبرت دیکھ لے
عالم فانی کے ہر انداز کو
ہوگئی گردش جو قسمت کی تمام
دیکھ لینگے چرخِ کینہ ساز کو
ایک دن جائیگی جان عندلیب
ساتھ لیکر حسرتِ پرواز کو
دل میرا ٹکڑے ہوا جاتا ہے کیوں
سن لیا شاید نوائے راز کو
ہم سمجھتے ہیں شبِ غم ہمنفس
ٹوٹنا دل کا شکستِ ساز کو
ہائے دل بیٹھا ہی جاتا ہے مرا
کیا کہوں حسرت بھری آواز کو
رہنے والے بیخبر انجام سے
رورہا ہے کیا ابھی آغاز کو
جاننے والے مصور شعر کے
کچھ سمجھتے ہی نہیں اعجاز کو
HomePage ہوم پیج
No comments:
Post a Comment