نفس کی آمد وشد ختم جب ہوئی سمجھے
چراغ عمر ان ہوائوں کے دم سے روشن تھا
چراغ عمر
خیالِ برق نہ آیا، جہاں وہ مسکن تھا
کہ شاخِ قدس پہ اپنا کبھی نشیمن تھا
ہم آپ مرکز اصلی سے ہٹ گئے تھے مگر یہاں
نہ رہنما ہی کوئی تھا، نہ کوئی رہزن تھا
یہ آنکھیں، آنکھیں وہ تھیں جن میں تھی نَشاط بہار
یہ دل وہ دل تھا جو رشک بہارگلشن تھا
عبث ہے شکوہء نیرنگیء خزاں بلبل
بہارکسکی تھی گل کس کے کسکا گلشن تھا
ترس رہے ہیں ہمیں آج اے امید بہار
بھرا ہوا کبھی پھولوں سے اپنا دامن تھا
تلاش ہے ہمیں اب حسن نازپرورکی
کبھی ہمارا ہی دل رشک دشتِ ایمن تھا
نکال کر مجھے گلشن سے شاد ہے گلچیں
کھٹک رہا تھا میں دلمیں کہ خارِ گلشن تھا
نہ توڑنا تھا اسے آپکو بھی شیخ حرم
جوکعبہ والوں سے اک رشتہءبرہمن تھا
ہمارے قتل کا ہمکو نہیں کوئی افسوس
یہ کس کے خون سے آلودہ کسکا دامن تھا
نفس کی آمدوشدختم جب ہوئی سمجھے
چراغ عمر ان ہوائوں کے دم سے روشن تھا
جب اضطراب نہ بادصباکا دیکھ سکا
خموش دم میں ہمارا چراغ مدفن تھا
گزررہاہوں مصوّر فناکی منزل سے
مٹادیا ہے احسان چرخ پُر شیون تھا
آسان اردو - جستجو میڈیا
شیوَن [شے + وَن] (فارسی)
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
نالہ و فریاد، نوحہ زاری، آوازِ ماتم، واویلا۔
Grief, mourning, lamentation
Homepage ہوم پیج
No comments:
Post a Comment