ناکامیوں پہ صدقے مری کامرانیاں
ہر ہر قدم پہ مجھکو خدا سے ملادیا
منزل
ہم رہروان عشق کے پوچھو نہ مرتبے
بھٹکا جو راہبر، اسے راستہ بتادیا
نیرنگیاں تو گلشن عالم کی دیکھیئے
ہنسنے نہ پائے تھے کہ یکایک رلا دیا
اب خاک ہوکے سرمہ ء اہل نظر توہوں
اچھا کیا، کہ جوخاک میں مجھکو ملادیا
ناکامیوں پہ صدقے مری کامرانیاں
ہر ہر قدم پہ مجھکو خدا سے ملادیا
فطرت نے خوب کی گل و شبنم کی پرورش
لطف بقا اسے، اُسے ذوق فنا دیا
صد شکر اب بھی ہوں میں کسیکی نگاہ میں
گو اک جہاں نے مجھکو نظرسے گرادیا
ابتک جہاں میں نقش وفا یادگار ہے
ابھرا اسیقدر، اسے جتنا مٹادیا
اسباب زیست آمدورفت نفس کہاں
ہرسانس نے بھی ہمکو تو درس فنا دیا
اے وائے انقلاب کہ جوسربلند تھا
اُسکو فلک نے خاک کے نیچے دبادیا
خود فرض کرلیا ہے تصوّر میں ایک مقام
اور اُسکو ایک حاصل قسمت بنادیا
برباد کرنے والے میں اس آن کے نثار
عمر دوام بخش کے مجھکو مٹادیا
صورت گر ازل ترے قربان جائوں میں
ذرّوں سے خاک کے مجھے انساں بنادیا
بیدار حشر تک نہوئے محو رنگ و بو
باد نسیم نے انہیں ایسا سلا دیا
اک زندگئی عشق کی بیدار روح تھی
خوابیدہ کائنات کو جس نے جگا دیا
یوں منزل مراد مصوّر کو مل گئی
موہوم حسرتوں نے بھی کچھ آسرا دیا
Go back to Home Page ہوم پیج پر واپسی
No comments:
Post a Comment