لیکے انگڑائی وہ چونک اٹھتے ہیں خواب ناز سے
ر خ پر جب پڑ تی ہے تنو یر شعا ع آ فتا ب
جلوہ
بام پر وہ ہیں کہ تصویر شعاع آفتاب
جلوہ گر ہیں وہ کہ تنویر شعاع آفتاب
بن سنور کر دوپہر کو بام پر آتے ہو کیوں
چوم لیگی منہ نہ تنویر شعاع آفتاب
وصف لکھینگے کسی خورشید رو کا شعر میں
اسطرح کھینچیں گے تصویر شعاع آفتاب
عکس انکے روئےرنگیں کا وہ دیکھ لے
جس نے دیکھی نہ ہو تحریر شعاع آفتاب
چھیڑ کرتی ہے وہ روز انکی سنہری زلف سے
کسقدرہے شوخ تنویر شعاع آفتاب
دیکھنے والا ہوں میں اس روئے عالم تاب کا
کیا مری نظرونمیں توقیر شعاع آفتاب
بام سے تابش نے اسکی کرلیا مجھ کو اسیر
زلف انکی ہے کہ زنجیر شعاع آفتاب
لیکے انگڑائی وہ چونک اٹھتے ہیں خواب ناز سے
رخ پر جب پڑتی ہے تنویر شعاع آفتاب
دوپہر کا وقت ہے بام پر ہیں جلوہ گر
آج چمکائیںگے وہ تقدیر شعاع آفتاب
یہ عرق انکی جبیں پر رنگ چہرہ کا سرخ
روئے نازک پر یہ تاثیر شعاع آفتاب
صبح ہوتے ہی وہ آتے ہیں مصور بام پر
انکو لے آتی ہے تدبیر شعاع آفتاب
No comments:
Post a Comment