چمن سے نکلے تو دیکھا نہ پھر چمن کا منہ |
چھٹا ہے کیسے زمانہ میں آشیاں ہمسے |
لپٹ کے کہتی ہے یہ خاک رفتگاں ہم سے |
وہ تم ہو روز جو ملتے تھے مہرباں ہم سے |
|
پڑیگی خاک ترے منہ پہ خاکسار ہیں ہم |
غبار رکھ نہ بہت دلمیں آسماں ہم سے |
|
ہو ا یہ کہتی ہے گلشن کی بے ثباتی کی |
بہار دور ہے، نزدیک ہے خزاں ہمسے |
|
چمن میں کیا گل بازی ہمیں سمجھتا ہے |
جو کھیلتا ہے یہ نیرنگ آسماں ہمسے |
|
چمن کی سیر میں رہتا ہے ہمکو یہ کھٹکا |
الجھ پڑے نہ کوئی خارِ گلستاں ہمسے |
|
ہے پست رتبہ میں ہمسے وہ خاکسار ہیں ہم |
بلند ہوکے، جھکے کیوں نہ آسماں ہمسے |
|
نگاہِ یاس سے حسرت سے دیکھنے والے |
سنیں نا! دردومصیبت کی داستاں ہمسے |
|
ہوا میں خاک جو اڑتی ہے دیکھ اے عبرت |
وہ کہہ رہی ہے سب احوالِ رفتگاں ہمسے |
|
تری تلاش میں نالوں نے رہنمائی کی |
چھٹا نہ راہ میں اشکوں کا کارواں ہمسے |
|
چمن سے نکلے تو دیکھا نہ پھر چمن کا منہ |
چھٹا ہے کیسے زمانہ میں آشیاں ہمسے |
|
وہ خاکسار ہیں، بدلہ لیا نہ اس سے کبھی |
بدل چکا ہے کئی بار آسماں ہمسے |
|
وجود ہی تو ہمارا ہے تفرقہ کا سبب |
ہوں بے نشاں تو ملیگا وہ بے نشاں ہمسے |
|
مصّور اور کوئی نکتہ ہمکو یاد نہیں |
کہ خوش جناب جگر سا ہے نکتہ داں ہمسے |
|
نہیں ہے دور تو ہم سے یہاں جبینِ نیاز |
ہزار دور سہی، اوسکا استاں ہم سے |
|
یہ کہہ رہی ہیں محبت میں رفعتیں دل کی |
رہا نہ جائیگا اب زیرِ آسماں ہم سے |
|
نظر میں نور، تو دل میں خیال بنکے رہا |
ہزار پردوں میں وہ کب رہا نہاں ہم سے |
|
زمانے میں ہے مصور وہ اج بے قدری |
نہ خوش ہوں بدلیں زباں بھی جو خوش بیاں ہمسے |
No comments:
Post a Comment