پئے دید اے محوِ راہِ حجاز |
نگاہِ حقیقت نِگَر چاہیے |
چاہیئے |
|
رہِ عشق میں یوں گزر چاہیے |
بجائے قدم، چشمِ تر چاہیے |
|
جنوں عشق کا عمر بھر چاہیے |
یہ دل چاہیے یہ جگر چاہیے |
|
نہ دل کی ضرورت نہ سر چاہیے |
تیرا آستاں تیرا در چاہیے |
|
جہانمیں کوئی چیز اگرچاہیے |
تو یا رب دعا میں اثر چاہیے |
|
نگاہوں میں انکی ہے نیرنگِ دوست |
کچھ احساسِ اہل نظر چاہیے |
|
سنانے کو رودادِ غم عندلیب |
کوئی مجھ سا بے بال و پر چاہیے |
|
نہ مٹ جائے احساسِ عفووکرم |
گناہونسے ربط اسقدر چاہیے |
|
تجھے عازمِ منزلِ سرمدی |
نہ کچھ خوفِ راہِ خطر چاہیے |
|
سہارا ہے رحمت کا اُسکی بہت |
نہ کچھ ہمکو زادِ سفر چاہیے |
|
گلی وہ تری ہو کہ راہِ عدم |
مسافر کو اک رہگزر چاہیے |
|
نہ دیکھو زمانے کی نیرنگیاں |
انھیں دیکھنے کو نظر چاہیے |
|
نہ جانے پیام اجل آئے کب |
کہ ہر وقت عزمِ سفر چاہیے |
|
کبھی دردِ دل کی ہمیں آرزو |
کبھی ہمکو دردِ جگر چاہیے |
|
یہ مانا یہی آستاں ہے ترا |
مگر اسکے قابل تو سر چاہیے |
|
پئے دید اے محوِ راہِ حجاز |
نگاہِ حقیقت نِگَر چاہیے |
|
جو دنیا کی نعمت سے محروم ہے |
فقط اُسکو تیری نظر چاہیے |
|
کم از کم ترا عاشقِ تلخ کلام |
زمانہ سے تو بیخبر چاہیے |
|
اگر انکو دیکھیں تو دیکھا کریں |
کہ اتنا تو ذوقِ نظر چاہیے |
|
ہوا خود فراموش جسکے لیے |
کچھ اسکی خبر، بیخبر چاہیے |
|
مٹادے زمانے سے قاروں کا نام |
مگر اسقدر حب زر چاہیے |
|
مصور کو نا اہل کیوں کہہ دیا |
تمھیں قدر اہلِ ہنر چاہیے |
|
|
|
آسان اردو-جستجو میڈیا |
[حَقِیقَت نِگَر[حَقی + قَت + نِگَر |
صفت ذاتی صفت بیں۔ |
No comments:
Post a Comment