غمِ افلاس و رنج بیکسی، فکرِ تن آسانی |
بنائیں ڈالدیں خود ہمنے غمہائے فراواں کی |

کہیں کیوں ہم نہ اس سے مشکلیں آغاز حرماں کی |
بدل سکتا ہے جو تحریر بھی قست کے عنواں کی |
رہیگی یاد مدت تک اداسی باغِ امکاں کی |
بہت کی ہمنے گر! دوروز بھی سیر گلستانکی |
ہمیں اتنا بتا، اے بیکسی گورِ غریباں کی |
یہاں تسکیں بھی ہوجاتی ہے کچھ، بیمارِ ہجراں کی |
جھپکتے ہی پلک حالت بدلتی ہے گلستانکی |
کوئی حیرانیاں دیکھے، ہماری چشمِ حیراں کی |
پڑیگی روشنی سو طرح، اسکے ہر نتیجہ پر |
کریگی شرح، دنیا سرگزشتِ غم کے عنواں کی |
محبت ہے مجھے اتنی وطن کے ذرے ذرے سے |
مری نظرونمیں وقعت کچھ نہیں ملکِ سلیماں کی |
غم و رنج و محن کی قدر اس سے پوچھتے کیا ہو |
کہ جس نے پڑکے مشکل میں کبھی مشکل نہ آساں کی |
غمِ افلاس و رنج بیکسی، فکرِ تن آسانی |
بنائیں ڈالدیں خود ہمنے غمہائے فراواں کی |
مآل ہستیء فانی جہاں میں دیکھتے جائو |
یہاں آکر ہر اِک انساں نے آخر گورہی جھانکی |
بہت دشوار ہے انسان کا انسان ہوجانا |
کہ ہے مجموعہء اضداد سے تخلیق انساں کی |
ہمیشہ معرکوں میں موت کے وہ دل بڑھاتا ہے |
زمانے سے نرالی شان ہے انکے اپنے نگہباں کی |
فضاکے ذرّے ذرّے سے مسیحائی ہویداہے |
وہ میرا درد ہے جسکو نہیں حاجت ہی درماں کی |
میں ہنگامِ سحر اس یاد، اس انداز کے صدقے |
لطافت جذب دلمیں ہوگئی انوارِ عرفاں کی |
بجھادونگا ہوائے حق سے اک دن شمع باطل کو |
دکھادونگا جہاں کو شان سوز و سازِ ایماں کی |
زمانے کا تنوّع دیکھکر یہ سوچتا ہوں میں |
کسے تقلید کرنی چاہیے آئینِ دوراں کی |
ہوا معلوم اپنی سعیء لاحاصل سے یہ ہمکو |
کہ ہے شرمندہء تدبیر بھی تقدیرانساں کی |
کہاں بزمِ ازل ایدل، کہاں رعنائیِ دنیا |
یہاں تک ہمکو لے آئی کشش گورِ غریباں کی |
ذرا اعلانِ حق تو ہم کریں باطل پرستوں میں |
زمانہ سرجھکا دیگا قسم اعجاز ایماں کی |
کچھ اپنے قصرِ تن کی یاد کر بربادیاں غافل |
کہ تجھکو اس جہاں میں فکر ہے تعمیرِ ایواں کی |
ابھی جلنے دے اپنا خرمنِ امید جلنے دے |
قسم ایدل تجھے برقِ تبسم ہائے پنہاں کی |
کئے جائینگے احساں، دوست اپنا ہو کہ ہو دشمن |
کہ ہمنے ٹھان لی ہے اپنے دلمیں ابتواحساں کی |
محالاتِ جہاں آنکھیں دکھاتے ہی رہے ہمکو |
مگر ہم خاک ہی چھانا کئے صحرائے امکاں کی |
اسی کا نام ہی شاید، قیامت ہے، جہاں والو |
جہاں سب ختم ہوتی ہیں حدیں امکانِ انساں کی |
شرر انگیز آہوں میں، تلاطم خیز اشکوں میں |
حقیقت دیکھتاہوں برق و باد و ابر و طوفاں کی |
نگاہِ لطف کی اے دل یہ درپردہ شکایت ہے |
یہاں تفصیل ہی کیوں ہو، مرے حالِ پریشاں کی |
اصولِ شرع پر قائم رہیں جذباتِ نسوانی |
ضرورت ہے تو اتنی ہے، ہمیں تعلیم نسواں کی |
مصور وہ شکستہ دل ہُوں دنیائے تمنا میں |
نہ دیکھی جائیگی حالت اسیرِ دام حرماں کی |
No comments:
Post a Comment