Justuju Tv جستجو ٹی وی


The All New Justuju Web TV Channel

کلام و کائنات مصور: مخزن غزلیات میں خوش آمدید

Thursday, March 19, 2009

غمہائے فراواں

غمِ افلاس و رنج بیکسی، فکرِ تن آسانی

بنائیں ڈالدیں خود ہمنے غمہائے فراواں کی







غمہائے فراواں


کہیں کیوں ہم نہ اس سے مشکلیں آغاز حرماں کی

بدل سکتا ہے جو تحریر بھی قست کے عنواں کی


رہیگی یاد مدت تک اداسی باغِ امکاں کی

بہت کی ہمنے گر! دوروز بھی سیر گلستانکی


ہمیں اتنا بتا، اے بیکسی گورِ غریباں کی

یہاں تسکیں بھی ہوجاتی ہے کچھ، بیمارِ ہجراں کی


جھپکتے ہی پلک حالت بدلتی ہے گلستانکی

کوئی حیرانیاں دیکھے، ہماری چشمِ حیراں کی


پڑیگی روشنی سو طرح، اسکے ہر نتیجہ پر

کریگی شرح، دنیا سرگزشتِ غم کے عنواں کی


محبت ہے مجھے اتنی وطن کے ذرے ذرے سے

مری نظرونمیں وقعت کچھ نہیں ملکِ سلیماں کی


غم و رنج و محن کی قدر اس سے پوچھتے کیا ہو

کہ جس نے پڑکے مشکل میں کبھی مشکل نہ آساں کی


غمِ افلاس و رنج بیکسی، فکرِ تن آسانی

بنائیں ڈالدیں خود ہمنے غمہائے فراواں کی


مآل ہستیء فانی جہاں میں دیکھتے جائو

یہاں آکر ہر اِک انساں نے آخر گورہی جھانکی


بہت دشوار ہے انسان کا انسان ہوجانا

کہ ہے مجموعہء اضداد سے تخلیق انساں کی


ہمیشہ معرکوں میں موت کے وہ دل بڑھاتا ہے

زمانے سے نرالی شان ہے انکے اپنے نگہباں کی


فضاکے ذرّے ذرّے سے مسیحائی ہویداہے

وہ میرا درد ہے جسکو نہیں حاجت ہی درماں کی


میں ہنگامِ سحر اس یاد، اس انداز کے صدقے

لطافت جذب دلمیں ہوگئی انوارِ عرفاں کی


بجھادونگا ہوائے حق سے اک دن شمع باطل کو

دکھادونگا جہاں کو شان سوز و سازِ ایماں کی


زمانے کا تنوّع دیکھکر یہ سوچتا ہوں میں

کسے تقلید کرنی چاہیے آئینِ دوراں کی


ہوا معلوم اپنی سعیء لاحاصل سے یہ ہمکو

کہ ہے شرمندہء تدبیر بھی تقدیرانساں کی


کہاں بزمِ ازل ایدل، کہاں رعنائیِ دنیا

یہاں تک ہمکو لے آئی کشش گورِ غریباں کی


ذرا اعلانِ حق تو ہم کریں باطل پرستوں میں

زمانہ سرجھکا دیگا قسم اعجاز ایماں کی


کچھ اپنے قصرِ تن کی یاد کر بربادیاں غافل

کہ تجھکو اس جہاں میں فکر ہے تعمیرِ ایواں کی


ابھی جلنے دے اپنا خرمنِ امید جلنے دے

قسم ایدل تجھے برقِ تبسم ہائے پنہاں کی


کئے جائینگے احساں، دوست اپنا ہو کہ ہو دشمن

کہ ہمنے ٹھان لی ہے اپنے دلمیں ابتواحساں کی


محالاتِ جہاں آنکھیں دکھاتے ہی رہے ہمکو

مگر ہم خاک ہی چھانا کئے صحرائے امکاں کی


اسی کا نام ہی شاید، قیامت ہے، جہاں والو

جہاں سب ختم ہوتی ہیں حدیں امکانِ انساں کی


شرر انگیز آہوں میں، تلاطم خیز اشکوں میں

حقیقت دیکھتاہوں برق و باد و ابر و طوفاں کی


نگاہِ لطف کی اے دل یہ درپردہ شکایت ہے

یہاں تفصیل ہی کیوں ہو، مرے حالِ پریشاں کی


اصولِ شرع پر قائم رہیں جذباتِ نسوانی

ضرورت ہے تو اتنی ہے، ہمیں تعلیم نسواں کی


مصور  وہ شکستہ دل ہُوں دنیائے تمنا میں

نہ  دیکھی جائیگی حالت اسیرِ دام حرماں کی



No comments:

Design & Content Managers

Design & Content Managers
Click for More Justuju Projects