یہ حقیقت ہے بحرِ ہستی کی |
کچھ گمانِ سَراب ہوتا ہے |

سَراب بحرِ ہستی |
|
ذرّہ جب بے نقاب ہوتا ہے |
ہمسرِ آفتاب ہوتا ہے |
|
دل میں کیوں اضطراب ہوتا ہے |
کیا کوئی انقلاب ہوتا ہے |
|
جب کوئی کامیاب ہوتا ہے |
دل میں اکِ اضطراب ہوتا ہے |
|
دیکھکر مدوجزر بحرِ فنا |
دل شکستہ حباب ہوتا ہے |
|
دلکی دنیا بدل گئی اے چرخ |
ہائے کیا انقلاب ہوتا ہے |
|
خاطرِ نفس کیلئے انساں |
خود جہانمیں خراب ہوتا ہے |
|
یاد کرلوں سکونِ رفتہ کو |
آج پھر اضطراب ہوتا ہے |
|
موت جو ہوتی ہے پاسباں اسکی |
جب کوئی محوِ خواب ہوتا ہے |
|
وقفہء دم دوں کہاں اے دل |
ہر دم اک انقلاب ہوتا ہے |
|
چشمِ ظاہر سے دیکھنے والو |
نور ہی خود حجاب ہوتا ہے |
|
خوار ہوتا ہے جو محبت میں |
دل وہی کامیا ب ہوتا ہے |
|
بادہء ظلم سے *نکر لبریز |
ساغرِ دل خراب ہوتا ہے |
|
نہیں ہرگز وہ رحم کے قابل |
جسپہ تیرا عتاب ہوتا ہے |
|
یہ حقیقت ہے بحرِ ہستی کی |
کچھ گمانِ سَراب ہوتا ہے |
|
آئینہ خانے میں یہ عکس اپنا |
دیکھکر خود حجاب ہوتا ہے |
|
کہتی ہے کرکے خم ہمیں پیری |
یہ مآلِ شباب ہوتا ہے |
|
ہوتی ہے اسکی تہ میں شانِ جلال |
جب کوئی انقلاب ہوتا ہے |
|
آنکھ کھلتی بھی ہے تو کب افسوس |
سر پہ جب آفتاب ہوتا ہے |
|
حالِ درد دل سنکے سب خموش ہیں کیوں |
بات کا کچھ جواب ہوتا ہے |
|
آئینہ ہوں میں صاف دل ہوکر |
ذرہ یوں آفتاب ہوتا ہے |
|
درد کی آرزو ہے اسکے عوض |
یہ عجب انتخاب ہوتا ہے |
|
شبِ غم اپنا نالہء تنہا |
بیکسی کا جواب ہوتا ہے |
|
دل سلامت رہے زمانہ میں |
روز ایک انقلاب ہوتا ہے |
|
دل جو ہوتا ہے اے امیدِ سکوں |
پیکرِ اضطراب ہوتا ہے |
|
شعر اب ہے وہی قابلِ تحسیں |
سو میں جو انتخاب ہوتا ہے |
|
آگیا دور اب مصور کا |
نظم میں انقلاب ہوتا ہے |
آسان اردو=جستجو میڈیا |
نکر=نہ کر مآل=نتیجہ سَراب=دھوکہ، فریب آمیز پانی کا سماں |
|
No comments:
Post a Comment