روشن چراغ اس سے مری زندگی کا ہے
ناصح کریگا کیا مرے دل کی بجھاکے آگ
آتش نوائیاں
وہ آج خوش ہیں غیرکےدلکی بجھاکے آگ
لگجائے دلمیں کیوں نہ پھراہلِ وفا کے آگ
مانا کہ دل میں رہتی ہے اہلِ وفا کے آگ
دیکھو کبھی تو اپنے بھی دلمیں لگاکے آگ
جوکچھ سوال یار تھا سب دلمیں جل گیا
ہم کامراں ہیں اپنے ہی گھر میں لگا کے آگ
روشن چراغ اس سے مری زندگی کا ہے
ناصح کریگا کیا مرے دل کی بجھاکے آگ
بولے وہ ہنسکے آتشِ الفت کے ذکر پر
سچے ہوتم تو سینے پہ رکھ لو اٹھا کے آگ
آئینہ سے اٹھا نہ کبھی دودِ اختلاف
بھڑکی کبھی نہ سینے میں اہلِ صفا کے آگ
لب پر تمہارے برق تبسّم ہے کس لئے
مجھکوجلائوگے مرے دلکی بجھاکے آگ
جھونکوں نے اسکے آتشِ گل اور تیز کی
دامن میں تھی بھری ہوئی بادصبا کے آگ
سوز درونِ خرمنِ ہستی جلادیا
ہوتی نہیں صلہ میں تو یارب دعاکے آگ
آتش فشانیاں تری اے چشم اشکبار
چھوڑینگی ہجریار میں مجکورلاکے آگ
آتش نوائیاں ہیں مصوّر تری غضب
اٹھ سب اہل بزم کے دلمیں لگاکے آگ
HomePage ہوم
No comments:
Post a Comment