کرتا ہوں میں مشاہدہ ظلمتِ جہاں |
شمعِ حیات دل میں فروزاں کیے ہوئے |
کیے ہوئے |
|
ذرّوں کو آج دیدہء حیراں کیے ہوئے |
ہم زارِ دل کرینگے، نمایاں کیے ہوئے |
|
دل نظر یاس و حسرت و حرماں کئے ہوئے |
رازِ نشاطِ غم ہوں نمایاں کیے ہوئے |
|
اب پھر کے جارہی ہے، کہاں نگاہِ حسن |
اکِ دل کو رشکِ مہردرخشاں کیے ہوئے |
|
کرتا رہا نگاہ، محالات دہر پر |
میں ہرنظر کو حاصلِ امکاں کیے ہوئے |
|
جو دیکھتے ہیں کر نہیں سکتے بیان ہم |
آنکھونمیں دل کا نور نمایاں کیے ہوئے |
|
اترا ہر ایک ذرہ سے رنگِ فریب حسن |
دیکھا تجھے نگاہ میں پنہاں کیے ہوئے |
|
ہم ہورہے ہیں باعثِ جمعیت جہاں |
اپنے ہی دل کو آپ پریشاں کئے ہوئے |
|
اسمیں ضرور تیری مشیت کو دخل ہے |
تیرِ نظر ہے فصد رگِ جاں کیے ہوئے |
|
کرتا ہوں میں مشاہدہ ظلمتِ جہاں |
شمعِ حیات دل میں فروزاں کیے ہوئے |
|
توسیع کررہا ہوں میں بزم شہود کی |
دلمیں خیالِ تنگئ زنداں کیے ہوئے |
|
رہتاہوں محوِ خندہء گلہائے آرزو |
اپنے ہی دل کو رشکِ گلستاں کیےہوئے |
|
رکھتا ہوں آرزو میں سکونِ دوام کی |
دلکو رہینِ گردشِ دوراں کیے ہوئے |
|
مدنظر ہے کیا تجھے، اے چشمِ التفات |
آنکھوں میں خونِ دل ہوں نمایاں کیے ہوئے |
|
ہرچیز آرہی ہے نظر مجھ کو بے نقاب |
اک جلوہء فریبِ نمایاں کیے ہوئے |
|
اوراقِ گل پہ دیکھ کبھی تو مآلِ گل |
دلکو نثارِ خوبیء عنواں کیے ہوئے |
|
مدت ہوئی کہ ہم تری کرتے ہیں پرورش |
اے درد تجھکو قلب کا درماں کیے ہوئے |
|
ہاں ہاں سنائو آج مصور نوائے غم |
ظاہر جہاں پہ تلخیء دوراں کیے ہوئے |
|
|
|
No comments:
Post a Comment