مر ے رونے پہ گریاں اک جہاں ہے یہ کیسا ابرِ رحمت امتحاں ہے |

مر ے رونے پہ گریاں اک جہاں ہے یہ کیسا ابرِ رحمت امتحاں ہے جسے خود ڈھونڈتی پھرتی ہے منزل وہ اب گم کردہء منزل کہاں ہے حقیقت آشنا آنکھوں کے صدقے عیاں وہ ہے نظر سے جو نہاں ہے جہاں حد نظر تک دیکھتا ہوں زمیں پر آسماں ہی آسماں ہے ابھی رشتہ نہیں ٹوٹا چمن سے قفس میں بھی خیالِ آشیاں ہے انھیں مژدہ جو خوش ہیں زندگی سے ہمیں تو موت عمر جاوداں ہے زبانِ حال سے کہتی ہیں قبریں کہ مدفوں عظمتِ کسرےٰ یہاں ہے اٹھیگا ہم سے کیا احساں کسیکا ہمیں تنکا بھی اِک بارِ گراں ہے ذرا تھمتی ہوئی ساحل بہ ساحل روانہ کشتیء عمرِ رواں ہے وفا کا نام لب پر آگیا تھا اب اپنا امتحاں ہی امتحاں ہے تصدق اسپہ سوبیداریاں ہوں کوئی غفلت میں اپنا پاسباں ہے بہ ظاہر جانتی ہے مجکو دنیا نہیں معلوم جو عزمِ جہاں ہے تعیّن کی حدوں سے بڑھ رہا ہوں کہاں ایدل فضائے لامکاں ہے سمجھ لے اپنی لغزش کو جو لغزش وہی ثابت قدم انساں یہاں ہے مشرف اسکے جلووں سے مصوِّر زمیں ہے، آسماں ہے، لامکاں ہے |
No comments:
Post a Comment