مری اس عالمِ غربت میں ہے یہ شانِ استغنا |
جہاں کی سلطنت زیرِ نگیں معلوم ہوتی ہے |

احساس ۔۔ |
گھڑی اب کامیابی کی قریب معلوم ہوتی ہے |
مری تکلیف راحت آفریں معلوم ہوتی ہے |
|
مرے صدماتِ پیہم نے کیا گردابِ غم پیدا |
کہ ہر موجِ نفس اندوہگیں معلوم ہوتی ہے |
|
ان آنکھونسے فلک کی گردشیں وہ ہمنے دیکھی ہیں |
نگاہِ لطف بھی ظلم آفریں معلوم ہوتی ہے |
|
زمانہ کے تغیّر نے اسے ایسا بدل ڈالا |
کہ غیراب حالت قلب حزیں معلوم ہوتی ہے |
|
مخالف ہے جہاں کیا کہکشاں کو دیکھکر خوش ہوں |
کسی کو مجکو یہ چینِ بجبیں معلوم ہوتی ہے |
|
نوازش ہے تری بے مِہریء اہلِ وطن مجھ پر |
فلک مجکو وطن کی اب زمیں معلوم ہوتی ہے |
|
مری اس عالمِ غربت میں ہے یہ شانِ استغنا |
جہاں کی سلطنت زیرِ نگیں معلوم ہوتی ہے |
|
نظر میری لڑی ہے اسکی رحمت سے دمِ آخر |
امید افزا نگاہِ واپسیں معلوم ہوتی ہے |
|
مصور عاقبت بینی سے کیا ہوگا تجھے حاصل |
گھڑی جو آنیوالی ہے، کہیں معلوم ہوتی ہے |
No comments:
Post a Comment