بہت ہیں شوخ کانٹے اس چمن کے |
الجھ پڑتے ہیں دامانِ نظر سے |

دامنِ نظر |
|
گلہ آہوں کو ہے یہ چشمِ تر سے |
ہوا کیسے چلے جب مینہ نہ برسے |
|
بہیں اشکِ ندامت چشم ترسے |
بجائے آبِ اب رحمت ہی برسے |
|
غبار *آسا سوئے چرخِ ستمگر |
اٹھیں ہم *مٹکے تیری رہ گذرسے |
|
تعین کی حدیں منہ تک رہی ہیں |
ہم اتنے بڑھ گئے حد نظر سے |
|
وسیع اتنا ہے دامانِ قناعت |
کہ بھرتا ہی نہیں لعل و گہر سے |
|
نشاں ملتا ہے کچھ اہلِ وفا کا |
ترے کوچہ سے تیری رہگزر سے |
|
جھلکتا ہے ہمارا خونِ حسرت |
تمنّائے دلِ بیداد گرسے |
|
بہت ہیں شوخ کانٹے اس چمن کے |
الجھ پڑتے ہیں دامانِ نظر سے |
ہوا معلوم یہ غربت میں ہمکو |
نہیں بہتر جگہ دنیا میں گھر سے |
نہ سمجھو شرحِ غم کو بے حقیقت |
اسے لکھے گی دنیا آبِ زر سے |
|
ہے خضرِ راہ ذرہ ذرہ ہمکو |
کچھ ایسے ہوگئے ہیں بیخبرسے |
|
سکونِ دل بھی ہم کھو بیٹھے آخر |
ملا کیا خدشہء نفع و ضررسے |
|
نفس کی آمدوشد کہہ رہی ہے |
نہیں واقف کوئی اپنے سفر سے |
|
جہاں میں ہر بشر کو جانچتا ہوں |
نگاہِ امتیازِ خیروشر سے |
|
ہمیشہ جس نے دیکھی ہیں بہاریں |
چمن میں اب وہ پھولوں کو ترسے |
|
ارے چشمِ عنایت کرنے والے |
دبا جاتا ہوں میں بارِ نظر سے |
|
سہارا دیکے یہ کہتی ہے رحمت |
نکل جاتی ہے کشتی یوں بھنورسے |
|
شکستیں اپنی اب یاد آرہی ہیں |
خوشی حاصل ہو کیا فتح و ظفر سے |
|
ہے کیوں انسانیت دنیا سے معدوم |
یہ پوچھو اپنے دلِ بیداد گر سے |
|
نجانے کیا سمجھکر وقتِ آخر |
لپٹ کر روئے ہم شمعِ سحر سے |
|
فسانے غم کے، قصے بیکسی کے |
سنینگے اپنے قلبِ نوحہ گر سے* |
|
زمانہ ہے کہ راہ پر اب آرہا ہے |
لیا ہے کام وہ جذبِ نظر سے |
|
مٹاکر اس جہانِ بے اثرکو |
عوض لونگا میں آہِ بے اثرسے |
|
تلاشِ ماسوا میں کھوگئے ہیں |
کہ ہم پنہاں ہیں خود اپنی نظر سے |
|
پڑے ہیں راہ میں جو دل کے ذرّے |
پرودینگے انہیں تارِ نظر سے |
|
بہت عاجز سہی بندے خدا کے |
مگر معلوم ہوتے ہیں نڈرسے |
|
ہنر کو عیب وہ سمجھیں مصور |
توقع یہ نہیں اہلِ ہنر سے آسان اردو=جستجو میڈیا سنینگے=سنیں گے* |
آسا= آس، امید، جیسا* مٹکے= مٹ کے* |
No comments:
Post a Comment